۸ آذر ۱۴۰۳ |۲۶ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 28, 2024
کیرلہ

حوزہ, کسی بھی مذہب کو ماننے والے اپنے مذہب کی تشریح کے سلسلے میں جن شخصیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان ہی کی تشریح قابل قبول ہوگی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی/آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کیرالا ہائی کورٹ کے خلع سے متعلق فیصلہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ قانون کی تشریح سے آگے بڑھ کر خود قانون وضع کرنے کے درجہ میں ہے، جو یقیناََ عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے، عدالت کا فریضہ ہے کہ شریعت اپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷ میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کی تشریح کرے اور جو معاملہ سامنے آئے اس کو اس پر منطبق کرے، نہ یہ کہ وہ اپنی طرف سے اس میں اضافہ کرے یا اپنے آپ کو اس میں ردوبدل کا مجاز سمجھے.

اسلام میں شوہر وبیوی کے درمیان علیحدگی کے لئے تین طریقے متعین ہیں اور یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہیں،اول: طلاق، جس کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ وہ اس کا بیجا استعمال نہ کرے، دوسرے: خلع، جس میں شوہر اور بیوی کی باہمی رضامندی سے طلاق واقع ہوتی ہے، اس صورت میں بھی بیوی یک طرفہ طور پر خلع نہیں کر سکتی، یہ بھی طلاق ہی کی ایک صورت ہے؛ البتہ اس میں شوہر وبیوی کی آپسی مفاہمت شامل رہتی ہے، تیسری صورت فسخ نکاح کی ہے، جو عدالت کے ذریعہ انجام پاتا ہے، اگربیوی علیحدگی چاہتی ہو اور شوہر طلاق دینے کو تیار نہ ہو تو اب کورٹ کے ذریعہ فیصلہ ہوتا ہے، اگر کورٹ نے محسوس کیا کہ واقعی عورت مظلوم ہے تو نکاح فسخ کر سکتا ہے اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ عورت کا دعویٰ صحیح نہیں ہے تو درخواست رد کر سکتا ہے، قرآن وحدیث سے زوجین کے درمیان علیحدگی کی یہی تین صورتیں ثابت ہیں؛ لہٰذا خلع میں بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے، ہاں اگر شوہر نے ایک معاہدہ کے تحت بیوی کو حق دیا ہو کہ وہ اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے تو اس صورت میں بیوی شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی اپنے آپ پر طلاق واقع کر سکتی ہے، اس کو فقہ کی اصطلاح میں '' تفویض طلاق '' کہتے ہیں، کیرالا ہائی کورٹ میں ابھی جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس سی ایس ڈائس نے خلع کی جو تشریح کی ہے، اس کے مطابق بیوی یکطرفہ طور پر خلع لے سکتی ہے، یہ نہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے اور نہ معتبر علماء وفقہاء نے اس قسم کی بات کہی ہے، عدالت نے اپنے حدود واختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اس سلسلے میں فقہاء کی تشریح کا کوئی اعتبار نہیں ہے؛ بلکہ ججز کی تشریح کا اعتبار ہے.

یہ قانون کے ماہرین کی طرف سے مذہب کا ماہر ہونے کا ادعاء ہے، کسی بھی مذہب کو ماننے والے اپنے مذہب کی تشریح کے سلسلے میں جن شخصیتوں پر بھروسہ کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان ہی کی تشریح قابل قبول ہوگی، جیسا کہ ہندوستان کے دستور وقانون کی تشریح کے سلسلہ میں ، کسی مذہبی عالم کی بات سند نہیں ہو سکتی، اسی طرح مذہبی احکام کی تشریح میں مذہب کے شارحین کی رائے کے بر خلاف کسی ماہر قانون کی بات قابل قبول نہیں ہو سکتی، کیرالا ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول اور تکلیف دہ ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عنقریب اس فیصلہ کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .